آئینہ بھی اب ہمیں پہچانتا نہیں

تجمل کلیم — احساس کی شدت

اردو شاعری میں درد و احساس کے جو رنگ تجمل کلیم کے ہاں پائے جاتے ہیں، وہ قاری کے دل پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔ ان کے اشعار میں زندگی کی تلخی، امید کی رمق، اور روحانی بے قراری کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

وقت کی گرد نے چہرہ چھپا رکھا ہے
آئینہ بھی اب ہمیں پہچانتا نہیں

اس شعر میں شاعر وقت کے ستم کو چہرے کے مٹتے ہوئے نقوش کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ آئینہ جو پہچان کی علامت ہے، وہی اب انجان ہو گیا ہے — ایک گہری تنہائی اور خودی کے بکھرنے کا بیان۔

درد کی چادر اوڑھ کر ہم نے
خواب دیکھے تھے روشنی کے

یہاں شاعر نے تکلیف کو ایک اوڑھنی کے طور پر بیان کیا ہے، جس کے باوجود اُس نے روشنی، یعنی امید یا بہتری، کے خواب دیکھے۔ یہ شعر ان کے رجائی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔

تجمل کلیم کے کلام کا خاصہ یہ ہے کہ وہ گہری بات کو نہایت سادہ انداز میں کہہ جاتے ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف جمالیاتی تسکین دیتی ہے بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

ہتھیں یاداں دے شہر اجاڑ دتے۔تجمل کلیم

To vi Meri akh nhi parhda

سچ بولیا تے چپ کرا دتا۔تجمل کلیم پنجابی شاعری